جنریٹو اے آئی اور تعلیم: ایک روشن مستقبل کی جانب
فوری جواب اساتذہ اور پالیسی سازوں سے درکار ہے۔ ایک عوامی جامعہ میں فیکلٹی ممبر اور ایڈوانسڈ اسٹڈیز اینڈ ریسرچ بورڈ کا رکن ہونے کے ناطے، میں نے خود دیکھا ہے کہ ChatGPT جیسے AI ٹولز نے علمی حلقوں میں کس قدر جوش و خروش اور بے یقینی کو جنم دیا ہے۔

فوری جواب اساتذہ اور پالیسی سازوں سے درکار ہے۔ ایک عوامی جامعہ میں فیکلٹی ممبر اور ایڈوانسڈ اسٹڈیز اینڈ ریسرچ بورڈ کا رکن ہونے کے ناطے، میں نے خود دیکھا ہے کہ ChatGPT جیسے AI ٹولز نے علمی حلقوں میں کس قدر جوش و خروش اور بے یقینی کو جنم دیا ہے۔
اگرچہ GenAI کی صلاحیتیں سیکھنے کے عمل اور تحقیقی پیداوار کو بہتر بنانے میں ناقابلِ تردید ہیں، مگر اس کے غیر منظم اور بے لگام استعمال سے تعلیمی دیانت داری، تنقیدی سوچ، اور علم تک مساوی رسائی جیسے بنیادی اصولوں کو سنگین خطرات لاحق ہیں۔
جب پاکستان ڈیجیٹل تبدیلی کو گلے لگا رہا ہے اور خود کو عالمی ڈیجیٹل معیشت میں جگہ دینے کی کوشش کر رہا ہے، تو AI سے متعلق خواندگی (AI Literacy) ایک بنیادی مہارت کے طور پر ابھر کر سامنے آئی ہے۔ 5 اکتوبر 2024 کو شائع شدہ اپنے ایک مضمون ’’AI ایجوکیشن ریولوشن‘‘ میں، میں نے یہ مؤقف اختیار کیا تھا کہ AI خواندگی صرف ایک تکنیکی صلاحیت نہیں بلکہ ایک کثیر الجہتی صلاحیت ہے جس میں اخلاقی شعور، تنقیدی سوچ، اور ذمے دارانہ رویہ شامل ہیں۔
یہ مؤقف آج پہلے سے کہیں زیادہ اہم ہو چکا ہے۔ ChatGPT اور DALL•E جیسے ٹولز کے عام ہو جانے کے بعد، طلبہ کو نہ صرف ان کا مؤثر استعمال سکھانا ضروری ہے بلکہ یہ بھی سمجھانا لازمی ہے کہ ان کے سماجی اور علمی اثرات کیا ہیں۔
GenAI ان گنت مواقع فراہم کرتا ہے: یہ ذاتی نوعیت کی تعلیم ممکن بناتا ہے، تحقیق کو آسان بناتا ہے، فوری فیڈبیک مہیا کرتا ہے، اور پیچیدہ علم تک رسائی فراہم کرتا ہے۔ کم وسائل والے علاقوں کے طلبہ کے لیے یہ ٹیکنالوجی تعلیمی خلا کو پُر کرنے کا ذریعہ بن سکتی ہے۔ محققین کے لیے یہ معلومات کے بوجھ کو کم کرنے میں مددگار ہے۔
مگر ان سہولتوں کے ساتھ خطرات بھی وابستہ ہیں۔ مضامین، تجزیے، اور حتیٰ کہ خیالات کی بے تکلف تخلیق، اگر بغیر سوچے سمجھے استعمال کی جائے، تو تعلیم کا بنیادی مقصد — خودمختار سوچ اور جستجو — متاثر ہوتا ہے۔
ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ طلبہ سیکھنے کو کس نگاہ سے دیکھنے لگے ہیں۔ اب اکثر AI ٹولز کو شارٹ کٹ کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے — اکثر نیت کے بغیر، مگر اس سے تنقیدی سوچ اور جدت کا عمل نظرانداز ہو رہا ہے۔ اس رجحان سے تعلیمی سختی متاثر ہو رہی ہے اور غیر فعال انحصار کا کلچر فروغ پا رہا ہے — جیسا کہ AI کے غلط استعمال اور غیر ارادی سرقہ (plagiarism) کے تناظر میں پہلے سے خبردار کیا گیا تھا۔ AI خواندگی کی عدم موجودگی سیکھنے اور نقل کرنے، سوچنے اور صرف پرامپٹ دینے کے درمیان فرق کو مٹا سکتی ہے۔
ان خطرات سے نمٹنے کے لیے یونیسکو (UNESCO) کی حالیہ گائیڈ لائنز ایک مؤثر فریم ورک مہیا کرتی ہیں۔ حکومتوں کو چاہیے کہ وہ واضح، قابلِ عمل قوانین مرتب کریں جن میں عمر کے مطابق استعمال، ڈیٹا پروٹیکشن، اور الگورتھم کی شفافیت جیسے عناصر شامل ہوں۔ تعلیمی اداروں کو چاہیے کہ AI ٹولز کے تعلیمی جواز اور اخلاقی پہلوؤں کا گہرائی سے جائزہ لیں، اس سے قبل کہ انہیں نصاب میں شامل کیا جائے۔
تاہم سب سے ضروری قدم یہ ہے کہ AI خواندگی کو نصاب کا مستقل حصہ بنایا جائے — بالکل ویسے ہی جیسے تنقیدی سوچ یا ڈیجیٹل شہریت کو سکھایا جاتا ہے۔
GenAI کے ساتھ عملی مشغولیت (hands-on engagement) لازم ہے۔ طلبہ کو صرف مواد تخلیق کرنا نہیں آنا چاہیے، بلکہ اسے جانچنے کی صلاحیت بھی ہونی چاہیے — کہ آیا وہ مواد تعصب سے پاک ہے، منطقی ہے اور درست ہے۔ اس کے لیے امتحانات کے انداز میں بھی تبدیلی ناگزیر ہے — زبانی پریزنٹیشنز، گروہی منصوبے اور تنقیدی جائزے جیسے طریقے اپنانا ہوں گے تاکہ سچا اور عملی علم فروغ پا سکے۔
اساتذہ کو بھی اپنے طریقہ تدریس کو اپ ڈیٹ کرنا ہو گا۔ اس کے لیے تربیتی پروگرام ترتیب دیے جائیں تاکہ وہ طلبہ کی درست رہنمائی کر سکیں۔ اداروں کو چاہیے کہ وہ AI کے انضمام کو تعلیمی دیانت کے اصولوں کے ساتھ ہم آہنگ کرتے ہوئے تدریسی حکمتِ عملیوں کو بہتر بنائیں۔
چونکہ AI کی نوعیت سرحدوں سے ماورا ہے، اس لیے بین الاقوامی تعاون بھی ناگزیر ہے۔ یونیسکو کو چاہیے کہ وہ اخلاقی اصولوں اور بہترین طریقہ کار کے تعین میں رہنمائی جاری رکھے۔ پاکستان کو چاہیے کہ وہ اس عالمی مکالمے میں بھرپور حصہ لے، اور مقامی سطح پر نصاب میں اصلاح، تکنیکی بنیادی ڈھانچے میں سرمایہ کاری، اور علمی و پالیسی اشتراک کے ذریعے اپنے نظام کو مضبوط بنائے تاکہ GenAI کو ایک ذمے دار اور مساوی تعلیمی ٹول کے طور پر استعمال کیا جا سکے۔
GenAI کوئی وقتی رجحان نہیں، بلکہ ایک ساختی تبدیلی ہے۔ یہ علم کو جمہوری بنانے کا ذریعہ بھی بن سکتا ہے اور تعلیمی اقدار کو نقصان بھی پہنچا سکتا ہے — یہ سب اس بات پر منحصر ہے کہ آج ہم کس فہم و فراست کے ساتھ اس سے نبرد آزما ہوتے ہیں۔ تعلیم کا مستقبل صرف مشینیں نہیں طے کریں گی، بلکہ ہم کیسے انہیں اپناتے ہیں — اس کی دانائی ہی فیصلہ کن ہو گی۔